ان بیکٹیریا کو بعد میں معدے کے امراض کی نشاندہی میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ معدے میں موجود ہزاروں مختلف اقسام کے بیکٹیریا ہمیں اپنی صحت کے متعلق بہت کچھ بتاتے ہیں۔
ایک جانب ذیابیطس کا پتا دیتے ہیں تو دوسری جانب بتاسکتے ہیں کہ کونسی دوا جسم پر اثر کرے گی اور کونسی ناکارہ رہے گی۔
لیکن روایتی طریقے میں ایک طرف تو بیکٹیریا کی معمولی مقدار ہی سامنے آتی ہے اور دوسری جانب یہ معلوم نہیں ہوتا کہ کونسا خردنامیہ کس جگہ پایا جاتا ہے۔
اس ٹیکنالوجی کو مزید بہتر بناکر پوری غذائی ہاضمی نالی کو جانچنے میں استعمال کیا جاسکتا ہے جن میں منہ، ایسوفیگس، معدہ، جگر، مثانہ، چھوٹی اور بڑی آنت شامل ہے۔
پوردوا یونیورسٹی کے سائنسداں رحیم رحیمی اور ان کے ساتھیوں نے یہ کیپسول بنایا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اتنی بڑی آنت کےکسی بھی مقام سے بیکٹیریا جمع کرنا اس سے قبل ممکن نہ تھا ۔
یہ دوا بھرے کیپسول جیسا ہے جو آنتوں اور ہاضماتی مقام سے گزرتا رہتا ہے۔ اگر آنتوں میں کہیں خون رس رہا ہے تو یہ اس کی بھی خبرلے سکتا ہے۔
اگر تجارتی پیمانے پر تیار کیا جائے تو اس کیپسول کی قیمت ایک ڈالر تک ہی ہوسکتی ہے۔ اس لحاظ سے یہ ایک کم خرچ طریقہ تشخیص ثابت ہوسکتا ہے۔
اس کے اولین تجربات خنزیوں پر کئے گئے ہیں جن کی آنتیں انسانوں کی طرح ہوتی ہیں۔ یہ کیپسول تھری ڈی پرنٹر سےبنایا گیا ہے اور کسی بھی طرح نقصاندہ نہیں۔
آنتوں کے تیزابیت بڑھتے ہیں اس کے اوپر کا خول گھل کر ختم ہوجاتا ہے اور ایک طرح کا ہائیڈروجل پھول کر آنتوں کا مائع جمع کرتا رہتا ہے۔
مائع اندر جاتے ہیں دباؤ سے بند ہوجاتا ہے اور چند گھنٹے بعد بدن سے خارج ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد تجربہ گاہ میں بیکٹیریا کا تجزیہ کیا جاسکتا ہے۔
from سچ ٹی وی اردو - تازہ ترین خبریں https://ift.tt/2PRFvG8
No comments:
Post a Comment