حتیٰ کہ کئی خواتین کمنٹیٹرز تو انٹرنیشل کرکٹ کونسل سے وابستہ ہیں۔ ایلیسن میچل کی مثال ہی لے لیجیے جو آئی سی سی کے لیے کمینٹری کرتی ہیں لیکن اس سب کے باوجود چاہے انگلش ٹیم کے سابق کپتان جیفری بائیکاٹ ہوں یا اپنے شاہد آفریدی، کھیلوں کے حوالے سے خواتین کی صلاحتیوں کا اعتراف کرنے والے کھلاڑی کم ہی نظر آتے ہیں۔
حال ہی میں پاکستان کے ایک نجی ٹی وی چینل پر بھی کچھ ایسا ہی ہوا جب پاکستانی کرکٹ ٹیم کے دو کھلاڑیوں کی کارکردگی کو لے کر ایک مرد اور خاتون تجزیہ نگار کے درمیان ہونے والی بحث ٹی وی سکرین سے سوشل میڈیا پر آ گئی۔
مذکورہ پروگرام میں سپورٹس جرنلسٹ و تجزیہ نگار عالیہ رشید کی جانب سے محمد رضوان کی تعریف کرنے پر سابق ٹیسٹ کرکٹر سکندر بخت شدید غصے میں آ گئے اور ان سے الجھتے نظر آئے۔
اور یہ معاملہ ابھی ٹھنڈا نہیں ہوا تھا کہ گذشتہ روز کے پروگرام میں انھوں نے عالیہ رشید اور تجزیہ نگار سویرا پاشا کو نشانہ بناتے ہوئے کچھ ایسے جملے کہہ ڈالے جنھیں لے کر کھیلوں میں خواتین جرنسلٹ سے روا رکھے جانے والے سلوک اور تعصب پر بحث شروع ہو گئی۔
پروگرام میں عالیہ اور سویرا پاشا کے تبصرے کے بعد سکندر بخت نے کہا ’جنھوں نے کبھی کرکٹ کا بلا نہ پکڑا ہو، جنھوں نے کبھی زندگی میں بیٹنگ پیڈز نہ پہنے ہوں، وہ ہمیں بتائیں گے کہ فٹ ورک کیا ہوتا ہے؟‘
عالیہ نے پروگرام کا ایک کلپ سوشل میڈیا پر شیئر کرتے ہوئے لکھا ’مجھے آج بتایا گیا ہے کہ کرکٹ پر میرا ٹیکنیکل بات کرنا ’جرم‘ ہے کیونکہ میں ٹیسٹ کرکٹر نہیں ہوں۔‘ ساتھ ہی انھوں نے سوال کیا ’بتائیے کرکٹ کے متعلق شو میں اور کس چیز پر بات ہونی چاہیے؟‘عالیہ کی اس ٹویٹ کے بعد پاکستانی سوشل میڈیا پر یہ سوال گردش کر رہا ہے کہ کرکٹ کے بارے میں تبصرہ یا تجزیہ کرنے کا حق کسے ہے اور کیا آج بھی اس کھیل سے وابستہ خواتین صحافیوں اور تجزیہ نگاروں کو تعصب آمیز رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟ یا سکندر بخت کی تنقید محض ایسے تجزیہ نگاروں کے لیے تھی جو اس کھیل کے تکنیکی پہلوؤں پر صرف اس لیے بات نہیں کر سکتے کہ وہ سابق کرکٹر نہیں؟
from سچ ٹی وی اردو - تازہ ترین خبریں https://ift.tt/3178Gvv
No comments:
Post a Comment